> essay on allama iqbal in urdu for class 10

essay on allama iqbal in urdu for class 10

 

علامہ محمد اقبال رحمتہ الله علیہ

مدت مدید کی بات ہے کہ کشمیر میں ہندوؤں کے ظلم وستم نے مسلمانوں کونہایت تنگ کررکھاتھا۔ کچھ مسلمانوں نے وادی کشمیر کی بہاروں کو چھوڑ ا اور پنجاب کی گرم ہواؤں میں آن بسے۔ ان مہاجر مسلمانوں میں سے ایک خاندان سیالکوٹ میں مقیم ہوا اور یہیں کا ہورہا۔ اس خاندان کے ایک بزرگ کا نام صوفی نورمحمد تھا جو سیالکوٹ میں ٹوپیوں کی دکان کرتے تھے ۔ وہ نیک طینت اور خدا پرست تھے۔٩ نومبر ۱۸۷٧ کوان کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا۔ ماں باپ نے خوشی منائی اور  بچے کا نام  محمد اقبال رکھا۔ 

وقت گزرتا گیا۔ بچہ بڑھتا گیا۔ جب ذراسیانا ہوا تو ایک مکتب میں پڑھنے کو بٹھادیا گیا۔ یہاں سے اٹھایا تو مشن سکول میں بٹھایا۔ بچہ تہا

بڑا ذہین ۔ اس نے پرائمری میں وظیفہ پایا پير مڈل  میں یہی اعزاز حاصل کیا۔ میٹرک سے فارغ ہو تو مری کا سیالکوٹ میں داخلہ لیا یہاں مولوی میرحسن جیسا شفیق استاد ملا جس نے عربی فارسی اور اسلامی تعلیم کا ذوق پیدا کیا۔ الف ۔ اے پاس کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور سے فلسفہ میں ایم   اے کیا اور کچھ عرصہ گورنمنٹ کالج میں پروفیسری کی۔ پھر ۱۹۰۵ء میں یورپ کے سفر پر کمر باندھی ۔ کیمبرج یونی ورسٹی سے بارایٹ لاء کیا اور جرمنی کی میونخ یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی اور ڈاکٹرمحمد اقبال بن کر وطن واپس آئے۔ اس بے وطنی اور یورپ کی بے راہ روی نے اقبال کے دل میں مذہب کی سچی محبت اور وقعت پیدا کردی۔ 

آپ کو بچپن ہی سے شعروشاعری سے محبت تھی۔ انجمن حمایت اسلام کے اجلاس میں اقبال کے نام سے رونق آجاتی تھی۔ اقبال کی نظم کا ایک ایک شعراشرفیوں میں تلتا تھا۔ وہ مسلمانوں کے زوال پر بے حدغم ناک تھے۔ وہ مسلم نوجوانوں کو اسلام کی آن پر کٹ مرنا سکھاتے تھے۔ چنانچہ آپ نے ۱۹۳۰ء کے خطہ الہ آباد میں پاکستان کا تخیل پیش کر کے نوجوانوں کے دلوں میں آگ لگادی ۔ قائد اعظم کو ولایت سے لائے اور مسلمانوں کی قیادت انہیں سونپی۔

اقبال جانتے تھے کہ محمد علی جناح ہی وہ شخصیت ہیں جنھیں تو خریدا جا سکتا ہے نہ راستے سے ہٹایا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے حصول کے

لیے ان سے زیادہ موزوں مسلمانوں میں کوئی نہیں۔ چنانچہ اقبال کی رہنمائی اور قائد اعظم کی شبانہ روز محنت سے ۱۴ اگست ۱۹۴۷ کو

پاکستان کا ہلال دنیا کے نقشے پر طلوع ہوا ۔

انگریز حکومت نے اقبال کو ”سر“ کا خطاب دے رکھا تھا۔ مگر اقبال نے انگریز حکومت کے بخیے اڈھیر کر رکھ دیے۔ انگریز کی ساحری کو مسحور کردیا اور وہ اس مرد درویش کے سامنے عاجز آگئی۔

اقبال نے اردو اور فارسی میں اس قدر بلند خیالات کا اظہار کیا ہے کہ ایران اور دنیا بھر کے شاعروں  اورفلسفیوں نے موجودہ زمانے کو

عصر اقبال‘‘ کہ کر تعریف کے پھول پیش کیے۔ اردو میں بانگ درا،” بال جبریل“، ”ضرب کلیم،“ ”ارمغان حجاز“ اقبال کے شعری مجموعے ہیں۔ فاری میں ”پیام مشرق“،” زبورعجم“ ”مثنوی اسرارورموز“،” جاوید نامہ“ ،”ارمغان حجاز“ کا کچھ حصہ شامل ہے۔

افسوس ہے کہ اقبال نے جوشمع جلائی تھی خود اس کی روشنی سے مستفید نہ ہو سکے اور ۲۱۔ اپریل ۱۹۳۸ کو راہ رو عالم بقا ہو گئے۔

بادشاہی مسجد کے صدر دروازے کے باہر آپ کا مقبرہ زیارت گاہ عوام وخواص ہے۔ سچ ہے کہ ایسے نابغہ روزگار کہیں صدیوں بعد ہی پیدا ہوتے ہیں۔وہ خود کہ گئے ہیں:

essay on allama iqbal in urdu for class in ms word file



Previous Post Next Post